اسلام آباد (تبصرہ:… انصار عباسی) وزیراعظم عمران خان نے بھارتی جارحیت سے نمٹنے اور اس کا جواب دینے کے معاملے میں مدبر سیاست دان ہونے کا ثبوت دیا اور اس کا واحد مقصد ملک کی سالمیت پر سمجھوتا کیے بغیر امن کا حصول تھا۔ پوری قوم، مسلح افواج، سیاست دانوں اور میڈیا نے وزیراعظم کا ساتھ دیا اور اپنا اپنا کردار ایک متحد ٹیم کے رکن کی طرح نبھایا۔ لیکن سب سے درخشاں ستارہ پاک فضائیہ کے اسکوارڈن لیڈر حسن صدیقی ہیں جنہوں نے بھارتی طیاروں کو مار گرایا۔ اس بات کا سہرا وزیراعظم اور پاکستان کو حتیٰ کہ بھارت کے ایک ریٹائرڈ فوجی اور کالم نگار کو جاتا ہے جنہوں نے یہ ٹوئٹ دی ’’ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی کے اعلان کے حوالے سے بھارتی وزارت دفاع کی بریفنگ سے پہلے ہی عمران خان نے ان کی رہائی کا اعلان کر دیا۔‘‘ اب وزارت دفاع کی بریفنگ ’’ملتوی‘‘ ہوگئی۔ اصل لڑائی میں چاہے جو ہو، پاکستان نے جامع انداز سے تاثرات کی جنگ جیت لی ہے۔ ہر موقع پر ان کی پی آر ہم سے آگے رہی۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ بھارتی
وزیراعظم نریندر مودی کی پاکستان کیخلاف چالبازی ناکام بنانے والے حتیٰ کہ دشمن ملک سے بھی تعریف وصول کرنے والے عمران خان ملک کی داخلی سیاست کے معاملے میں بھی مدبر سیاست دان ثابت ہو سکتے ہیں! اگر عمران خان مودی اور ان کی حکومت کی ہر طرح کی بے وقوفیوں کو نظرانداز کر سکتے ہیں، دشمن ملک کے گرفتار پائلٹ کو رہا کر سکتے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان کے حصول کیلئے کشیدگی کم کرنے کی یکطرفہ کوششوں کے تحت بھارتی وزیراعظم سے بات کر سکتے ہیں تو وہ اپنے ملک میں سیاسی مخالفین کے ساتھ مل بیٹھ کر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کیلئے بات کیوں نہیں کر سکتے۔ ممکن ہے کہ وہ شہباز شریف، بلاول بھٹو، آصف زرداری اور دیگر کو پسند نہ کرتے ہوں لیکن یہ لوگ مودی سے بد تر نہیں، یہ لوگ دشمن ملک سے نہیں آئے بلکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں فیصلہ کن نمائندگی حاصل کرکے آئے ہیں۔ امن کیلئے عمران خان مودی سے بات چیت اور ملاقات کیلئے تیار ہیں۔ لیکن ملک میں عمران خان ایسے موقع سے گریز کرتے ہیں اور حتیٰ الامکان کوشش کرتے ہیں کہ اپوزیشن رہنمائوں سے ہاتھ ملانے کی بھی نوبت نہ آئے۔ جب بھی وہ پارلیمنٹ آتے ہیں وہ چند ہی فٹ کے فاصلے پر بیٹھے اپوزیشن لیڈر سے آںکھ ملانا تک پسند نہیں کرتے۔ پارلیمنٹ نے جمعرات کو بھارت کیخلاف اتحاد کا اظہار کیا۔ وزیراعظم عمران خان سے لے کر اپوزیشن لیڈر اور دیگر پارلیمانی رہنمائوں تک؛ سب یک آواز ہوئے، لیکن اس موقع پر بھی وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن رہنمائوں کو نظرانداز کرنے کا معمول کا رویہ اختیار کیا۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے یہ دیکھ کر برا لگتا ہے جب فوج کی جانب سے تمام پارلیمانی رہنمائوں کو پارلیمنٹ میں بند کمرے کے اجلاس میں بریفنگ دی گئی اور وزیراعظم وہاں نہیں تھے۔ یہ ایک نا پختہ اور ایسے مدبر سیاست دان کا فیصلہ نہیں تھا جو مشکل حالات میں کرنا چاہئے۔ جو بات زیادہ پریشان کن اور ناقابل دفاع ہے وہ یہ ہے کہ وزیراعظم قومی اسمبلی کے پارلیمانی چیمبر میں موجود تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے بریفنگ میں شرکت نہیں کی حالانکہ اس کا خصوصی طور پر انتظام کیا گیا تھا۔ ایک ایسے شخص، جس نے کھلے دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا، سیاسی مخالفین کے ساتھ معاملہ سازی سے گریز کر رہا ہے۔ اگر ملک کو کامیاب اور بہتر مستقبل کی طرف لیجانا ہے تو وزیراعظم کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن رہنمائوں کے ساتھ مصافحہ کرنے، ان کے ساتھ خوش گوار انداز سے بات چیت کرنے یا ان سے رابطہ کرنے کے معاملے میں وزیراعظم کی ہچکچاہٹ کی وجہ ان کی جانب سے برسوں سے مخالفین کا ذہن میں بنایا ہوا چہرا ہے جو انہوں نے اپنے چاہنے والوں کے ذہنوں پر بھی نقش کر دیا ہے۔ پاگل اور جنگجو بھارتی میڈیا کی طرح، وزیراعظم کے گرد بھی کچھ ایسے عقاب موجود ہیں جو انہیں کہتے ہوں گے کہ اپوزیشن کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کو پی ٹی آئی کے چاہنے والے کرپشن پر سمجھوتا تصور کریں گے۔ وزیراعظم عمران خان کو کرپشن کے ایشو پر کوئی سمجھوتا کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر وہ سمجھتے ہیں یا ان کو اگر یہ یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ نیب جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ سب میرٹ کے مطابق ہو رہا ہے تو وہ غلطی کر رہے ہیں، اور اعلیٰ عدالتوں کے حالیہ چند فیصلوں سے اس بات کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے خود نیب کے کام کرنے کے انداز پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے، حکومت خود اعتراف کرتی ہے کہ بہتری کی ضرورت ہے۔ ایسا صرف پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے اور اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر کام کرنے سے ہی ممکن ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ میثاق معیشت کی اشد ضرورت ہے جسے اپوزیشن اور حکومتی ارکان کی پارلیمنٹ میں مکمل حمایت حاصل ہو تاکہ پائیدار معاشی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے اور ملک کو کاروباری افراد اور سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش جگہ بنایا جا سکے کیونکہ یہ لوگ ہر بدلتی حکومت یا بدلتے عہدیداروں کی وجہ سے پالیسیوں میں تبدیلی سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ اسی طرح ملک کو احتساب، طرز حکمرانی اور ادارہ سازی کے حوالے سے بھی متفقہ میثاق کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہے جب عمران خان اپوزیشن سے بات کرنے کے معاملے میں اپنی ہچکچاہٹ پر قابو پا لیں۔ یہ ایک ایسی کمزوری ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے۔ اگر عمران خان نے ایسا کر لیا تو وہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں
Share To:

Post A Comment: